Futuh ul Ghayb

فتوح الغیب – مقالہ ۱۴


فتوح الغیب – مقالاتِ محبوبِ سبحانی شیخ عبد القادر گیلانی

مقالہ ۱۴ – مقبولانِ بارگاہ

قال القطب الرباني الشيخ أبو محمد عبد القادر الجيلاني رضي الله عنه وأرضاه في كتاب فتوح الغيب: لا تدع حالة القوم يا صاحب الهوى. أنت تعبد الهوى وهم عبيد المولى. أنت رغبتك في الدنيا ورعبة القوم في العقبى. أنت ترى الدنيا وهم يرون ربّ الأرض والسماء. وأنت أنسك بالخلق وأنس القوم بالحق. أنت قلبك متعلق بمن في الأرض وقلوب القوم بربّ العرش. أنت يصطادك من ترى وهم لا يرون من ترى بل يرون خالق الأشياء وما يرى. فاز القوم به وحصلت لهم النجاة، وبقيت أنت مرتهنًا بما تشتهي من الدنيا وتهوى. فنوا عن الخلق والهوى والإرادة والمنى فوصلوا إلى الملك الأعلى، فأوقفهم على غاية ما رام منهم من الطاعة والجد والثناء. {ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}. المائدة 54. فلازموا ذلك وواظبوا بتوفيق منه وتيسير بلا عناء، فصارت الطاعة لهم روحًا وغذاء، وصارت الدنيا ذاك في حقهم نقمة وحزيًا، فكأنها لهم جنة المأوى إذ ما يرون شيئًا من الأشياء حتى يروا قبله فعل الذي خلق وأنشأ. فيهم ثبات الأرض والسماء، وقرار الموت والإحياء إذ جعلهم مليكهم أوتادًا للأرض الذي دحى، فكل كالجبل الذي رسى. فتنح عن طريقهم ولا تزاحم من لم يفده عن قصده الآباء والأبناء، فهم خير من خلق ربي وبث في الأرض وذرأ. فعليهم سلام الله وتحياته ما دامت الأرض والسماء.

ترجمہ: شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
اے خواہشات کے پُجاری! مقبولانِ بارگاہ کی ہمسری کا دعویٰ نہ کر۔ اس لیے کہ تو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور وہ اپنے مولیٰ کے مطیع و فرماں بردار ہیں۔ تیرا مطمحِ نظر دنیا ہے جبکہ ان کا منتہا و مقصود عقبیٰ ہے۔ تیری نگاہ دنیا پر ٹِکی ہوئی ہے جبکہ وہ آسمان و زمین کے پروردگار کے دیدار کی تجلیات سے مشرف ہیں۔ تیرا دلی لگاؤ مخلوق کے ساتھ ہے جبکہ ان کا روحانی رشتہ مالکِ عرش کے ساتھ وابستہ ہے۔ تو دنیا (کے ساز و سامان) میں جس چیز کو دیکھتا ہے اس کا گرفتار ہو جاتا ہے لیکن اُن کی نگاہ متاعِ دنیا پر نہیں بلکہ ان کے خالق پر ہوتی ہے جسے ظاہری آنکھوں سے نہیں (بلکہ دیدۂ باطن سے) دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ (گروہِ اصفیاء متاعِ دنیا سے) نجات حاصل کر کے فائز المرام ہو گئے لیکن تو ابھی تک اپنی خواہشات میں گرفتار اور اسبابِ دنیا کا اسیر ہے۔ وہ مخلوق، خواہشات اور ارادے و آرزؤں سے نکل کر خدائے برتر کے قُرب کی سعادت حاصل کر گئے اور اللہ نے انہیں منتہائے عبادت یعنی طاعت، حمد اور ثنا کے بلند مقامات پر فائز کر دیا۔ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے‘ جسے وہ چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ چنانچہ وہ طاعت اور حمد و ثنا پر ہمیشہ کے لیے کاربند ہو گئے اور اس میں اللہ کی توفیق اور عنایت سے کسی تکلیف اور مشقّت کے بغیر نہایت آسانی کے ساتھ مصروف رہے‘ یہاں تک کہ عبادت اور طاعت ان کی روح اور غذا بن گئی اور دنیا ان کے لیے نعمت اور سرور بن گئی۔ گویا دنیا ان کے لیے بہشت ہے‘ اس لیے کہ وہ متاعِ دنیا میں سے کسی بھی چیز کو دیکھتے وقت اس کے خالق اور پیدا کرنے والے کے فعل پر نظر رکھتے ہیں۔ (بس یہی وہ مبارک لوگ ہیں کہ) ان سے زمین و آسمان کا ثبات اور انہی کے ذریعے زندوں اور مردوں کا آرام و سکون قائم ہے کیونکہ انہین اللہ تعالیٰ نے اپنی زمین کے لیے ایک مرکز بنایا ہے، اور یہ ایسے پہاڑ کی طرح ہیں جو اپنی جگہ قائم ہے۔ لہٰذا جنہیں ماں باپ اور آل اولاد بھی اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکی، تو بھی ان کے راستے میں آ کر مزاحمت نہ کر‘ وہ اپنے رب کی بہترین مخلوق ہیں، جنہیں اس نے پیدا کر کے (فیضان کے لیے) زمین میں پھیلا دیا ہے۔ جب تک یہ زمین و آسمان قائم ہیں، اللہ کی طرف سے ان پر سلامتی و رحمت کا نزول ہو۔کیے۔
(مترجم: سیّد محمد فاروق القادری)

If you want to receive or deliver something related to this post, feel free to comment.